تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ[104] وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ[105]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور لازم ہے کہ تمھاری صورت میں ایک ایسی جماعت ہو جو نیکی کی طرف دعوت دیں اور اچھے کام کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [104] اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جو الگ الگ ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح احکام آ چکے اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ [105]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں [104] تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈاﻻ، اور اختلاف کیا، انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے [105]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں [104] اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا [105]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 104، 105،

یوم آخرت منافق اور مومن کی پہچان ٭٭

سیدنا ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس جماعت سے مراد خاص صحابہ رضی اللہ عنہم اور خاص راویان حدیث ہیں یعنی مجاہدین اور علماء [تفسیر ابن جریر الطبری:92/7] ‏‏‏‏

امام ابو جعفر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا صبر سے مراد قرآن و حدیث کی اتباع ہے، یاد رہے کہ ہر متنفس پر تبلیغ حق فرض ہے لیکن تاہم ایک جماعت تو خاص اسی کام میں مشغول رہنی چاہیئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے دفع کر دے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو اپنے دل سے نفرت کرے یہ ضعیف ایمان ہے، [صحیح مسلم:49] ‏‏‏‏ ایک اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں، [صحیح مسلم:49] ‏‏‏‏

[ صحیح مسلم ] ‏‏‏‏ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اچھائی کا حکم اور برائیوں سے مخالفت کرتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرما دے گا پھر تم دعائیں کرو گے لیکن قبول نہ ہوں گی۔ [سنن ترمذي:2169،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اس مضمون کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جو کسی اور مقام پر ذکر کی جائیں گی ان شاءاللہ تعالیٰ۔
1222

پھر فرماتا ہے کہ تم سابقہ لوگوں کی طرح افتراق و اختلاف نہ کرنا تم نیک باتوں کا حکم اور خلاف شرع باتوں سے روکنا نہ چھوڑنا، مسند احمد میں ہے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ حج کیلئے جب مکہ شریف میں آئے تو ظہر کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اہل کتاب اپنے دین میں اختلاف کر کے بہتر [72] ‏‏‏‏ گروہ بن گئے اور اس میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے خواہشات نفسانی اور خوش فہمی میں ہوں گے بلکہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی رگ رگ میں نفسانی خواہشیں اس طرح گھس جائیں گی جس طرح کتے کے کاٹے ہوئے انسان کی ایک ایک رگ اور ایک ایک جوڑ میں اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اے عرب کے لوگو اگر تم ہی اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز پر قائم نہ رہو گے تو اور لوگ تو بہت دور ہو جائیں گے۔ [سنن ابوداود:4597،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں
1223



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.